حیدرآباد پاکستان کے صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے جو کہ 1935 تک سندھ کا دارالخلافہ رہا۔ اس شہر کی بنیاد 1768 میں میان غلام شاہ کلہوڑو نے رکھی۔ قبل بنیاد یہ شہر ایک مچھیروں کا گاؤں تھا جس کا نام نیرون کوٹ تھا۔ پاکستان کے وقوف میں آنے سے پہلے اس شہر کو ہندوستان کے پیرس کا درجہ دیا جاتا تھا۔کیونکہ اس کی سڑکیں گلاب کے عرق سے صاف کی جاتی تھیں۔حیدرآباد میں زیادہ تر لوگ سندھی ہیں، کیونکہ اکثر اشخاص جو اس شہر میں آتے ہیں وہ اندرون سندھ کی جانب سے آتے ہیں۔ یہ یہاں پاکستان کے نامور ادارے سندھ یونیورسٹی میں پڑھنے آتے ہیں جو حیدرآباد سے 33 کلومیٹر کی دوری پر جام شورو میں وقوع ہے۔ حیدرآباد میں اس کے علاوہ اردو، پشتو اور پنجابی بولنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ حیدرآباد شہر، قبل تقسیم، مقام پذیر سندھیوں کا رہائشی علاقہ تھا لیکن حب 1947 کے بعد ہندوستان سے مہاجر ہجرت کر کے شہر میں داخل ہوئے تو سندھیوں اور مہاجرین میں فسادات چھڑ گئے۔ موجودہ حالات بہتر ہیں اور دونوں اقوام باہم خوش ہیں مگر اکثر واقعات ان علامات کا اظہار کرتے ہیں۔ مذاہب کے اعتبار سے حیدرآباد کے لوگ زیادہ تر مسلمان ہیں جبکہ ایک خاثر مقدار میں سندھی ہندو بھی یہاں رہایش پذیر ہیں۔ تقریباً 2 فیصد آبادی مقامی عیسائیوں کی ہے۔