کیلاش قبیلہ۔۔ از اقرارالدین خسرو
یہ قبیلہ چترال کی کل آبادی کا تقریبا ایک فیصد ہے اور جنوب مغربی چترال کے بمبوریت، بریر اور رمبور کی وادیوں میں رہتے ہیں۔ کیلاش اپنے اعتقادات کےلحاظ سے لا مذہب یا کافر ہیں۔ اور اپنی معاشرت اور رسم ورواج کے اعتبار سے نہایت قدیم تمدن کی یاد دلاتے ہیں۔ اور اپنے پرانے رسوم و رواج کے باعث موجودہ زمانے میں منفرد حثیت رکھتے ہیں۔ یہ تعجب کی بات ہے کہ سینکڑوں سالوں سے مخالف قوتوں کے نیچے رہنے کے باوجود اورمذہب اسلام کے غلبے اور آس پاس کی دیگر اقوام و قبائل کے ثقافتی یلغار کے باوجود کیلاش قبیلے نے اپنے پرانے رُسوم ورواج اور تہذیب و تمدن کو نہایت ابتدائی صورت میں بر قرار رکھا ہے۔ یہاں تک کہ کیلاش نے اپنی نسل کو ابتک دوسرے اثرات سے خالص اور محفوظ رکھا ہے۔ مختلف روایتوں کے حوالے سے یہ بات طے شدہ ہے کہ کیلاش تارکین وطن ہیں مگر ان کےا صلی وطن کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائیم نہیں کی جاسکتی۔ پروفیسر اسرارالدین کے مطابق دسویں اور گیارھویں صدی عیسوی میں سبگتگین اور اسکا بیٹا محمود غزنوی جلال آباد اور نغمان کے درمیان کفار قبائل کی سرکوبی میں مصروف تھے ان دنوں ان علاقوں میں لعل کافر بودباش رکھتے تھے (یاد رہے کہ لعل کافر علحیدہ قوم نورستان میں آباد تھی اُن میں اور کیلاش میں فرق کے لئے اُنھیں لعل کافر اور کیلاش کو کالا کافر کہا جاتا ہے) جب مسلمانوں نے حملہ کیا تو لعل کافر مقابلے کی تاب نہ لاکر بالائی وادیوں کی طرف پسپا ہو گئے۔ جہاں اُس وقت کیلاش آباد تھے چنانچہ انہوں نے کیلاش کو چترال کی وادیوں کی طرف دھکیل کر خود اُن کے علاقے پر قابض ہوگئے۔ اسی طرح کیلاش چترال آکر یہاں تمام جنوبی حصے پر قبضہ کر کے تین سو سال تک حکومت کی 1320ء میں کھو سرداروں نے کیلاش حکمران بل سنگھ کو شکست دیکر ان علاقوں پر قابض ہوگئے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ کیلاش جو کھو قبیلے کے ساتھ گاوں میں رہتے تھے انکی طرز زندگی اور مذہب (اسلام) سے متاثر ہو کر آہستہ آہستہ اسلام قبول کر کے اُن میں مُدغم ہوتے رہے۔ اور ان کھلی وادیوں میں رہنے والے تمام کیلاش مسلمان ہو گئے اور کھوار اپنا کر کھو قبیلے میں ضم ہوگئے۔ باقی وہ کیلاش جو علحیدہ تنگ وادیوں (بمبوریت، بریراور رمبور) میں رہائش پذیر تھے یا وہ بعد میں آکر ان علاقوں میں آباد ہوئے۔ اُن کو اپنے پرانے رسم ورواج اور اعتقاوات بر قرار رکھنے کا موقع مل گیا۔ اور یوں ان الگ تھلگ وادیوں میں اب تک قدیم تہذیب و تمدن کی یہ نشانیاں زندہ ہیں۔ اس قبیلے کا مذہب بُدہ پرستی، اجداد پرستی اور توہم پرستی کی امیزش سے بنی ہوئی کوئی چیز ہے۔ بہت سے دیووں اور دیوتاوں پر اُنکا اعتقاد ہے جن کی یہ بھجن گا کر اور ناچ کرعبادت کرتےہیں۔ ناچ گانے کی محفلوں میں مرد وخواتین مل کر حصہ لیتے ہیں۔ اوردیوتاوں کو خوش کرنے کے لئے سال کے مختلف حصوں میں تہوار مناتےہیں۔ ان کے اہم تہواروں میں چلم جوشٹ، چٹرماس، اوچال اورپُوڑ ہیں۔ چلم جوشٹ جو مئی کے وسط میں نہایت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے جسکو دیکھنے کے لئے ملکی و غیر ملکی سیاح بہت زیادہ تعداد میں ان علاقوں کا رخ کر تےہیں۔ کیلاش لوگ اُسی د ن لوگوں کی ضیا فت دہی اور دودہ سے بنی ہوئی چیزوں سے کرتے ہیں۔ شراب نوشی کی اُن کے مذہب میں کوئی پابندی نہیں مرد وعورت سب پیتے ہیں۔ اور دیسی شراب گھروں میں خود بناتے ہیں۔ کیلاش جھگڑا اور فساد سے سخت نفرت کرتے ہیں قتل کا اُن کے مذہب میں تصور ہی نہیں ہے۔ شادی زیادہ تر پسند کی کرتے ہیں۔ اگر کسی کی بیوی بھی پسند آئے تو اس سے بھی شادی کی جاسکتی ہے۔ بشرطیکہ لڑکی بھی اُسے پسند کرتی ہو۔ مگر شادی کے بعد دُگنا مال دینا پڑیگا جسے‘‘دُکن’’ کہتے ہیں۔ یعنی جتنا مال پہلے شادی کرنے والے شخص نے لڑکی والوں کودیا تھا اسکا دُگنا یہ بعد میں شادی کرنے والا پہلے شوہر کو دیگا۔ شادی عموماً ‘‘چلم جوشٹ’’ یا کسی دوسرے تہوار کے دنوں میں کرتے ہیں۔ تہوار مرد عورتیں، بچے، بچیاں اور بوڑھے سب مل کر ایک جگہے میں مناتے ہیں۔ یہاں لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرنے کے بعد چُھپکے سے نکل جاتے ہیں اور کسی رشتہ دار کے گھر جاکر شادی کا اعلان کرتے ہیں۔ کیلاش معاشروں میں عورتوں کو کمتر اور نجس تصور کیا جاتا ہے۔ اس لئے جو پاک مقامات ہیں یا جن چیزوں کو پاک رکھنا مقصود ہو اُن تک عورتوں کی رسائی ممنوع ہے۔ ماہوارایام، اور زچگی کے دوران عورتوں کو گاوں کے مکانات سے دور الگ تھلک کمرے میں رکھا جاتا ہے ۔جس کو ‘‘بشالینی’’ کہتے ہیں۔ اُس مکان کے قرب و جوار میں متعینہ حدود کے اندر کوئی مرد غلطی سے بھی قدم رکھے تو نا پاک ہوجاتا ہے۔ اور خود کو دوبارہ پا ک کرنے کے لئے قربان گاہ پر قربانی دینی پڑتی ہے ۔ کیلاش قبیلے کے لوگ اکثرناخواند ہوا کرتے تھے۔ مگر آجکل نئی نسل کے لوگ تعلیم پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ کیلاش عورتیں اُونی سُوتی کپڑوں کی لمبی قمیص پہنتی ہیں۔ جسے سنگچ کہتے ہیں۔ انکی لباس میں دلچسپ پہناوا ان کی ٹوپی ہے جو تابہ کمر لٹکی ہوئی ہوتی ہے۔ اس پر مُونگے سیپوں کے خوبصورت کام ہوتے ہیں اس کو ‘‘پِھس’’ کہتے ہیں ۔ کیلاش قبیلے کی زبان ‘‘کیلاشہ’’ یا ‘‘کلا شوار’’کہلاتی ہے ۔