فارغ بخاری (پیدائش: 11 نومبر، 1917ء - بریک: 13 اپریل، 1997ء) پاکستانو تعلق لاکھاک اردو، ہندکو اوچے پشتو زبانو ممتاز شاعر، نقاد، محقق اوچے صحافی اوشوئے۔
فارغ بخاری | |
---|---|
آژیک |
سید میر احمد شاہ 11 نومبر 10917 ء پشاور، برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان) |
بریک |
13 اپریل 10997 پشاور، پاکستان | ء
ادبی نام | فارغ بخاری |
پیشہ | شاعر، نقاد، محقق، صحافی |
زبان | اردو، پشتو، ہندکو |
قومیت | پٹھان |
شہریت | پاکستانی |
اصناف | شاعری، تنقید، خاکہ، سوانح، تحقیق، صحافت |
ادبی تحریک | ترقی پسند تحریک |
نویوکو کوروم |
ادبیات سرحد زیر و بم شیشے کے پیراہن پیاسے ہاتھ پشتو لوک گیت |
ایوارڈ و اعزازات | صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی |
حالات زندگی
editفارغ بخاری 11 نومبر، 1917ء پشاور، برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان)ہ پیدا ہوئے[1][2][3]۔
تصانیف
edit- خوشحال خان کے افکار (بہ اشتراک رضا ہمدانی)
- خوشحال خان خٹک (بہ اشتراک رضا ہمدانی)
- پشتو شاعری (بہ اشتراک رضا ہمدانی)
- رحمان بابا کے افکار (بہ اشتراک رضا ہمدانی)
- رحمان بابا (بہ اشتراک رضا ہمدانی)
- پٹھانوں کے ارمان (بہ اشتراک رضا ہمدانی)
- آیاتِ زندگی
- عورت کا گناہ (افسانے)
- باچا خان (خان عباغفار خان کی سوانح حیات)
- اٹک کے اُس پار (بہ اشتراک رضا ہمدانی)
- پشتو لوک گیت (بہ اشتراک رضا ہمدانی)
- پشتو ڈراما
- بے چہرہ سوال (نظمیں )
- غزلیہ (غزلیں)
- ادبیات سرحد جلد سوم (بہ اشتراک رضا ہمدانی)
- البم (ترقی پسند مصنفین کے خاکے)
- دوسرا البم (خاکے)
- ہندکو زبان کا ارتقا
- اقبال پر خوشحال کا اثر
- نویاں راواں (ہندکو شاعری کا انتخاب)
- کالی تہپ (ہندکو شاعری کا مجموعہ)
- برات عاشقاں (مشرقی پاکستان کے سفر کا رپورتاژ)
- شیشے کا پیراہن (شاعری)
- خوشبو کا سفر (شاعری)
- پیاسے ہاتھ (شاعری)
- محبتوں کے نگار خانے (شاعری)
- زیر و بم (شاعری)
- آئینے صدائوں کے (شاعری)
- اندیشۂ شہر (انتخاب کلام مرزا محمود سرحدی)
نمونۂ کلام
editاشعار
جب درد جگر میں ہوتا ہے تو دوا دیتے ہیں | رک جاتی ہیں جب نبضیں تو دُعا دیتے ہیں | |
کوئی پوچھے تو سہی اِن چارہ گروں سے فارغ | جب دل سے دھواں اُٹھے تو کیا دیتے ہیں |
شعر
فقیہہِ شہر کا سکہ ہے کھوٹا | مگر اس شہر میں چلتا بہت ہے |
غزل
کچھ اب کے بہاروں کا بھی انداز نیا ہے | ہر شاخ پہ غنچے کی جگہ زخم کھلا ہے | |
دو گھونٹ پلا دے کوئی مے ہو کہ ہلاہل | وہ تشنہ لبی ہے کہ بدن ٹوٹ رہا ہے | |
کل اس کو تراشو گے توپوجے کا زمانہ | پتھر کی طرح آج جو راہوں میں پڑا ہے |
غزل
تری خاطر یہ فسوں ہم نے جگا رکھا ہے | ورنہ آرائشِ افکار میں کیا رکھا ہے | |
ہے ترا عکس ہی آئینۂ دل کی زینت | ایک تصویر سے البم کو سجا رکھا ہے | |
برگ صد چاک کا پردہ ہےشگفتہ دل سے | قہقہوں سے کئی زخموں کو چھپا رکھا ہے | |
اب نہ بھٹکیں گے مسافر نئی نسلوں کےکبھی | ہم نے راہوں میں لہو اپنا جلا رکھا ہے | |
کس قیامت کا ہے دیدار ترا وعدہ شکن | دلِ بے تاب نے اک حشر اٹھا رکھا ہے | |
کوئی مشکل نہیں پہچان ہماری فارغ | اپنی خوشبو کا سفر ہم نے دا رکھا ہے |
غزل
دیکھ کر اس حسین پیکر کو | نشہ سا آ گیا سمندر کو | |
ڈالتی ڈگمگاتی سی ناؤ | پی گئی آ کے سارے ساگر کو | |
خشک پیڑوں میں جان پڑ گئی | دیکھ کر روپ کے سمندر کو | |
کوئی تو نیم و دریچوں سے | دیکھے اس رتجگے کے منظر کو | |
ایک دیوی ہے منتظر فارغ | وا کئے پٹ سجائے مندر کو |
حوالہ جات
edit- ↑ فارغ بخاری، سوانح و تصانیف ویب، پاکستان
- ↑ ص 798، پاکستان کرونیکل، عقیل عباس جعفری، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء
- ↑ فارغ بخاری، ریختہ ویب بھارت