ظفر اقبال (انگریزی: Zafar Iqbal)، (پیدائش: 27 ستمبر، 1932ء) پاکستانو معروف شاعر اوچے کالم نگار آسور۔ وا ھورو ژاو آفتاب اقبال معروف ٹی وی اینکر آسور۔
ظفر اقبال | |
---|---|
آژیک |
میاں ظفر اقبال 27 ستمبر 10932 بہاولنگر ، صوبہ پنجاب (برطانوی ہند) (موجودہ (پاکستان) |
ادبی نام | ظفر |
پیشہ | شاعر، کالم نگار |
ملک | پاکستانی |
قومیت | پنجابی |
تعلیم | بی اے، ایل ایل بی |
یونیورسٹی | گورنمنٹ کالج لاہور، پنجاب یونیورسٹی |
اصناف | غزل، نظم، کالم |
نویوکو کوروم |
آب رواں اطراف عیب و ہنر وہم وگمان |
ایوارڈ و اعزازات | صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی |
آژیلی | آفتاب اقبال |
کتاب
edit- خشت زعفران
- اطراف
- آب رواں
- عیب و ہنر
- ہرے ہنیرے
اعزازات
editحکومت پاکستان ھورو ادبی خدماتن اعترافہ ھوتے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی دیتی آسور۔
نمونۂ کلام
editغزل
کچھ اور ابھی ناز اٹھانے ہیں تمہارے | دنیا یہ تمہاری ہے، زمانے ہیں تمہارے | |
باتیں ہیں تمہاری جو بہانے ہیں تمہارے | اسلوب تو یہ خاص پرانے ہیں تمہارے | |
ویرانۂ دل سے تمہیں ڈر بھی نہیں لگتا | حیرت ہے کہ ایسے بھی ٹھکانے ہیں تمہارے | |
آنا ہے بہت دور سے ہم نے تری جانب | اور، باغ یہیں چھوڑ کے جانے ہیں تمہارے | |
ہر وقت یہاں خاک ہی اڑتی ہے شب و روز | دریا انہی صحراؤں میں لانے ہیں تمہارے | |
ہوتا، ظفر، ان میں جو کوئی رنگِ حقیقت | ویسے تو سبھی خواب سہانے ہیں تمہارے [1] |
غزل
جس نے نفرت ہی مجھے دی نہ ظفرؔ پیار دیا | میں نے سب کچھ اسے کیوں ہار دیا وار دیا | |
اک نظر نصف نظر شوخ نے ڈالی دل پر | اور اس دشت کو پیرایۂ گلزار دیا | |
وقت ضائع نہ کرو ہم نہیں ایسے ویسے | یہ اشارہ تو مجھے اس نے کئی بار دیا | |
زندہ رکھتا تھا مجھے شکل دکھا کر اپنی | کہیں روپوش ہوا اور مجھے مار دیا | |
زردیاں ہیں مرے چہرے پہ ظفرؔ اس گھر کی | اس نے آخر مجھے رنگ در و دیوار دیا [2] |
غزل
خامشی اچھی نہیں، انکار ہونا چاہیے | اور یہ تماشا اب سرِ بازار ہونا چاہیے | |
بات پوری ہے اُدھوری چاہیے اے جانِ جاناں | کام آساں ہے اسے دشوار ہونا چاہیے | |
دوستی کے نام پر کیجیے نہ کیونکر دشمنی | کچھ نہ کچھ آخر طریقہ کار ہونا چاہیے | |
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اُس پر ظفر | آدمی کو صاحب ِ کردار ہونا چاہیے [3] |