پروفیسرخاطر غزنوی (پیدائش: 25 نومبر، 1925ء - وفات: 7 جولائی 2008ء) پاکستانو سوم تعلق لاکھاک اردو اوچے ہندکو زبانو ممتاز شاعر، ادیب، پشاور یونیورسٹیو استاد اوچے اکادمی ادبیات پاکستانو سابق ڈائریکٹر جنرل اوشوئے۔
خاطر غزنوی | |
---|---|
آژیک |
ابراہیم بیگ 25 نومبر 10925 ء پشاور، برطانوی ہندوستان |
بریک |
7 جولائی 228 پشاور، پاکستان | ء
ادبی نام | خاطر غزنوی |
پیشہ | مصنف، پروفیسر |
زبان | اردو، ہندکو |
قومیت | پشتون |
شہریت |
![]() |
تعلیم | ایم اے (اردو) |
یونیورسٹی | پشاور یونیورسٹی |
اصناف | شاعری، افسانہ، ترجمہ |
نویوکو کوروم |
روپ رنگ، خواب در خواب شام کی چھتری سلسلہ انوار کا رومان رزم نامہ |
ایوارڈ و اعزازات | صدراتی تمغا برائے حسن کارکردگی |
فن
editخاطر غزنویو مشہور غزل دی لوڑور:[1]
گو ذرا سی بات پہ برسوں کے یارانے گئے | لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے | |
میں اِسے شہرت کہوں یا اپنی رُسوائی کہوں | مجھ سے پہلے اُس گلی میں، میرے افسانے گئے | |
یوں تو وہ، میری رگِ جاں سے بھی تھے نزدیک تر | آنسوؤں کی دُھند میں، لیکن نہ پہچانے گئے | |
وحشتیں کچھ اس طرح اپنا مقدر ہو گئیں | ہم جہاں پہنچے، ہمارے ساتھ ویرانے گئے | |
اب بھی ان یادوں کی خوشبو ذہن میں محفوظ ہے | بارہا ہم جن سے گلزاروں کو مہکانے گئے | |
کیا قیامت ہے کہ خاطر کشتۂ شب بھی تھے ہم | صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے |
شاعری
edit- روپ رنگ
- خواب در خواب
- شام کی چھتری
- کونجاں
نثر
edit- زندگی کے لیے پھول
- رومان
- رزم نامہ
- سرحد کے رومان
- پشتو متلونہ
- دستار نامہ
- پٹھان اور جذباتِ لطیف
- خوشحال نامہ
- چین نامہ
- اصناف ادب
- ایک کمرہ
اعزازات
editحکومت پاکستان خاطر غزنویو ادبی خدماتن اعترافہ ھوتے صدراتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا آریر۔[2]
وفات
editخاطر غزنوی 7 جولائی 2008ء پشاور، پاکستانا وفات ہوئے وا ھورو قبرستان رحمٰن بابا پشاورا آسودۂ پوتھور کورونو ہوئے۔[1][2][3]