محمد حمید شاہد | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 23 مارچ 1957 (65 سال)
پنڈی گھیب، ضلع اٹک، پاکستان |
شہریت | پاکستان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ پنجاب |
پیشہ | افسانہ نگار، نقاد، ناول نگار |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
کارہائے نمایاں | مٹی آدم کھاتی ہے |
اعزازات | |
تمغائے امتیاز | |
ویب سائٹ | |
ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
محمد حمید شاہد (پیدائش: 23 مارچ 1957ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے نامور افسانہ نگار، ناول نگار اور ادبی نقاد ہیں۔ حکومت پاکستان نے ادبی خدمات کے صلے میں 2017ء میں تمغا امتیاز سے نوازا۔ ان کے فن و شخصیت پر جامعات میں متعدد تحقیقی مقالہ جات لکھا جا چکے ہیں۔
ابتدائی زندگی
editمحمد حمید شاہد 23 مارچ 1957ء میں پنڈی گھیب ضلع اٹک، پنجاب، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد غلام محمد سماجی اور سیاسی کارکن تھے اور گھر میں کتب خانہ بنا رکھا تھا جس نے محمد حمید شاہد کو مطالعہ کے طرف راغب کیا۔ آپ کے دادا حافظ غلام نبی 1947ء میں اپنے آبائی گائوں چکی کو خیرباد کہہ کر پنڈی گھیب میں بس گئے تھے۔ آپ نسبی طور پر اعوان، اجمال ہیں۔
تعلیمی سلسلہ
editمحمد حمید شاہد نے ابتدائی تعلیم پنڈی گھیب سے پائی۔ میٹرک کے بعد زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں داخلہ لے لیا اور بہ قول سید ضمیر جعفری وہاں سے بستانیت کے فاضل ہوئے۔ بعد ازاں قانون کے تعلیم کے لیے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں داخل ہو گئے۔ مگر والد ماجد کی شدید علالت اور بعد میں موت کے ساتھ ہی یہ سلسلہ منقطع ہو گیا اور ایک بنکار کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کر دیا۔
ادب
editمحمد حمید شاہد کی ادبی زندگی کا آغاز یونیورسٹی کے زمانے ہی سے شروع ہو چکا تھا۔ آپ یونیورسٹی کے مجلہ “ کشت نو“ کے مدیر رہے۔ آپ کے پہلی کتاب اسی زمانے میں لاہور سے شائع ہوئی۔ پہلے پہلے انشائے بھی لکھے مگر جلد ہی افسانہ نگاری کی طرف آ گئے۔ “بند آنکھوں سے پرے“ کی اشاعت کے بعد اردو دنیا کی توجہ پا لی۔ آپ کے افسانوں کے مجموعوں “جنم جہنم“ اور “مرگ زار“ کے بعد آپ کا شمار اسی کی دہائی کے نمایاں ترین افسانہ نگاروں میں ہونے لگا۔ محمد حمید شاہد کے ناول “مٹی آدم کھاتی ہے“ اور اردو افسانوں “ سورگ میں سور“، “ مرگ زار“ اور “ برف کا گھونسلا “ کو بہت نمایاں مقام دیا جاتا ہے۔
تنقید
editمحمد حمید شاہد کا رویہ ایک ایسے تخلیق کار کا رویہ ہے جو اپنے تخلیقی جوہر کو مختلف اصناف‘ اسالیب اور موضوعات کی کٹھالی میں ڈال کر پرکھتا ہے اور خود کو کسی تنگ دائرے میں قید کرنے سے اجتناب کرتا ہے۔ اس بات نے اسے ایک طرف تو مختلف تناظر میں خود کو پرکھنے کی سہولت دی ہے ‘ دوسرا اس کے ہاں فنی اور فکری کشادگی بھی در آئی ہے جو میرے خیال میں آج کے لکھنے والوں کے لیے نہایت ضروری بات ہے
تصانیف
editمحمد حمید شاہد کی چند معروف تصانیف
افسانے
edit- بند آنکھوں سے پرے
- جنم جہنم
- مرگ زار
- پارو
- محمد حمید شاہد کےپچاس افسانے
ناول
edit- مٹی آدم کھاتی ہے
تنقید
edit- ادبی تنازعات
- اشفاق احمد : شخصیت و فن
- اردو افسانہ : صورت و معنی
دیگر
edit- پیکر جمیل
- لمحوں کا لمس
- The touch of moment
- سمندر اور سمندر
حوالہ جات
edit- ↑ https://www.rekhta.org/authors/mohammad-hameed-shahid
st
بیرونی روابط
edit- محمد حمید شاہد [1]
- دُکھ کیسے مرتا ہے https://www.rekhta.org/stories/dukh-kaise-marta-hai-mohammad-hameed-shahid-stories?lang=urآرکائیو شدہ [Date missing] بذریعہ