پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے صحافیوں کے تحفظ کے بل پر دستخط کر دیے ہیں جس کے بعد اب یہ بل قانون بن گیا ہے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہترین قانون ہے
کمیشن صحافیوں کے خلاف ہونے والی کسی بھی قسم کی کارروائی پر فوری طور پر کارروائی کر سکے گا اور خوش آئند بات یہ ہے کہ کمیشن میں ورکنگ جرنلسٹ کی تعداد زیادہ ہے۔
صحافیوں کے تحفظ کے قانون کے تحت اس کمیشن کو سول کورٹ کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ کمیشن میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے ہر صوبے سے ایک یعنی کُل چار نمائندے شامل ہوں گے۔ ایک نمائندہ قومی جب کہ ایک نمائندہ ہر صوبائی پریس کلب سے شامل ہو گا۔ وزارتِ اطلاعات اور انسانی حقوق کا بھی ایک ایک نمائندہ اس کمیشن کا حصہ ہو گا۔
کمیشن کا چیئرمین سابق جج یا قانون اور انسانی حقوق میں 20 سال کا تجربہ رکھنے والا شخص ہو گا۔
اگر کسی صحافی کو ہراساں کیے جانے یا تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا واقعہ پیش آتا ہے تو اس واقعے کی تفصیلات 14 روز کے اندر کمیشن کے سامنے پیش کی جائیں گی اور کمیشن 14 روز میں اس کے متعلق فیصلہ کرے گا۔
کمیشن کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ واقعے کی تحقیقات کے دوران کسی بھی شخص کو طلب کر سکتا ہے اور کسی بھی ادارے سے اس کے متعلق دستاویزات یا رپورٹ طلب کر سکتا ہے۔