پیرا شاہ غازی قلندردوراں عرف دمڑیاں والی سرکار کھڑی شریف میرپور آزاد کشمیر
ولادت
editپیرا شاہ غازی دمڑیاں والی سرکار1665ء بمطابق1076ھ موضع بہرام ضلع گجرات میں پیدا ہوئے۔ جبکہ اولیائے پنجاب کے مطابق منگلا کے قریب بڑل میں پیدا ہوئے پیرا شاہ غازی کے جد امجد بابا جاریہ خان المعروف پہاڑیہ خان موضع بڑل سے نقل مکانی کر کے موہال آئے آپ کی قوم بھی موہال تھی جو قطب شاہی اعوان کی ذیلی شاخ ہے۔
نام و نسب
editآپکا نام"بدوح شاہ"جنکا تعلق بافندہ گھرانے سے ہے اور لقب پیرا شاہ غازی المعروف دمڑیاں والی سرکار ہے۔ والد کا نام شیر خان مغل ہے ایک روایت کے مطابق والدین نے آپ کا نام پیر محمد رکھا مگر پیار سے آپ کو ’’ پیرا‘‘ پکارا جانے لگا۔
نسب طریقت
editآپ کا نسب طریقت خاندان قادریہ اور گروہ شاہ مقیم سے تعلق ہے پیرا شاہ غازی،سید شاہ محمد امیر بالاپیر،سید شاہ محمد مقیم محکم الدین،سید جمال اللہ حیات المیر زندہ پیر،غوث صمدانی شیخ عبد القادر جیلانی۔ اور بقول فقراء انکی نسبت خضر علیہ السلام سے روحانی طور پر بھی ہے۔
القاب و خطابات
editسخی سرکار،شاہ شاہاں،پیر پیراں،دستگیر درماندگاں،راہنمائے گمراہاں،مشکل کشائے ہر دو جہاں،قطب الاقطاب،فرد الاحباب،پیران پیر،عالیجناب مست،مست ساز ،بادشاہ بے نیاز ،شیر بیشہ اولیاء،اوج کبریائی کے شہباز،شہادت پناہ،غازی پیر پیرا شاہ قادری۔ غازی، المغازی، امیر العساکر۔
ابتدائی حالات
editشروع میں شعبہ تجارت سے وابستہ اور بہت مالدار تھے دو بیویاں تھیں ایک بیوی سے دو بیٹے تھے جبکہ دوسری سے کوئی اولادنہ تھی جس بیوی سے اولاد نہ تھی اس کی خبر ملی کہ کسی نے زہر دیدیا ہے جو ہلاک ہو گئی ہے تلاوت کرتے ہوئے دریا میں کود گئے اور روایت کے مطابق 12 سال تک غائب رہے جب واپس آئے تو مستی و سکر کی حالت قائم ہو گئی۔ آبادیوں سے دوررہنا اورکوہ و بیابان سے میل رکھنا پسند تھا جانور اور درندے آپ کی طرف مائل رہتے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ دورغائبخضر علیہ السلام کی صحبت میں رہے۔ اور انہی سے یہ فیوض و برکات حاصل تھیں۔
دمڑی والا کی وجہ تسمیہ
editایک مرتبہ غوث الاعظم کی بارگاہ میں حاضر تھے تو آپ نے فرمایا اے فقیر ہماری طرف سے تا قیامت ایک لاکھ ٹکہ وظیفہ مقرر کیا جاتا ہے جو مخلوق خدا تمہارے لیے ہر روز نذر نیاز مان کر پیش کیا کرے گی انہوں نے عرض کیا غریب نواز دنیاوی مال تو میرے کسی کام کا نہیں جبکہ میرے جانشین اس دولت کی وجہ سے اللہ کی یاد سے غافل رہیں گے اسے کم کر دیں دوبارہ فرمایا سوالاکھ روپے میں سے سوالاکھ دمڑی (ایک پیسہ میں چاریاآٹھ دمڑیاں ہوتی تھیں)آپ کی نذر ہو گی یہ ضرورت سے زیادہ بھی نہیں اور نہ دینے والے کے لیے بوجھ ہوگی۔ اب سوالاکھ روپے لوگ غوث پاک کی نذر مانتے ہیں ان میں سوالاکھ دمڑی پیرا شاہ غازی کے نام کی نذر ہوتی ہے
ننگے پاؤں برہنہ سر
editآپ کے بال لمبے تھے جب اللہ کا ذکر کرتے تو بال سیدھے آسمان کی جانب کھڑے ہو جاتے اکثرننگے پاؤں اور برہنہ سر ہوتے اور اکثر لوگ یہ کہتے پائے گئے
پیرا سر برہنہ نیست بر سر تاج داردچار ترک
ترک دنیا ترک عقبیٰ ترک مولی ترک ترک
کہ پیرا شاہ غازی ننگے سر نہیں اپنے سر پر چار ترک کے تاج سجائے ہیں اور وہ چار ترک ترک دنیا ترک عقبیٰ ترک سرداری اور ترک کلاہ شاہی کے ہیں
نشست گاہیں
editآپ کی کئی نشست گاہیں ہیں جہاں عقیدتمند حاضری دیتے ہیں
پیر تلاٹ
editایک نشت گاہ ملوٹ میں پہاڑ کے دامن میں ہے اس کا نام "پیر تلاٹ" ہے یہ جگہ میرپور سے شمال کی جانب چار میل پہاڑ کے دامن میں واقع ہے اس جگہ کے متعلق آپ کا فرمان ہے جو لوگ سنگ ملوٹ پر جا کر حاجات پیش کریں میں انکی فریاد خود سنتا ہوں۔
مہندرا
editدربار کھڑی کے شمال کی جانب ایک کوس کے فاصلے پر چک ٹھاکرہ میں واقع ایک پہاڑی پر کھلا میدان ہے جسے"مہندرا" کہتے ہیں۔ اس پہاڑ پر ایک لمباپتھر پڑا ہوا ہے جس کا سر محراب کی مانند ہے ایک مرتبہ آپ نے اس پتھر کو کہا اٹھ کھڑا ہو میں تجھ پر ٹیک لگاؤں وہ اس وقت سے اسی حالت میں کھڑا ہے آپ یہاں کافی وقت گزار کر آئے اب بھی پشت اور پاؤں کے نشانات اس جگہ پر واضح نظر آتے ہیں لوگ اب بھی وہاں حاضری دیتے ہیں۔
مالدیو موہال
editرہتاس کے قریب "مالدیو موہال"نامی ایک گاؤں ہے یہاں پر بھی آپ کی نشست گاہ تھی اس جگہ اب بھی چراغ روشن ہوتے ہیں ایک مرتبہ ایک عورت دودھ لیکر آئی وہ دیوار لیپ کر رہی تھی جلدی سے دودھ پینے کو کہا جو گرم تھا وہاں پر ایک کلام کہا"ملدے کہندیں نہ ٹھہریں لے بیٹیاں رہن کنواریاں مرن مسوبہی" جس کے بعد اس گاؤں میں اکثر بچیاں کنواریاں اور اور جوان موتیں ہوتی رہیں۔
شیشم کا درخت
editموجودہ مزار کے مشرق کی جانب ایک شیشم کے درخت کے نیچے بھی آپ کی نشت گاہ تھی جہاں اکثر نشست فرماتے شیشم کے اس درخت کے ارد گرد ایک چبوترا قائم کر دیا گیا جب یہ شیشم کا درخت خشک ہو گیا تو اسے مسجد میں استعمال کے لیے کاٹ دیا گیا جبکہ چبوترا باقی رکھا گیا۔
وصال
editآپ کا وصال 14شعبان1155ھ بمطابق1742ء ہے اورکھڑی شریف میں محو استراحت ہیں وصال کا عدد "زہے پیر مردان حق پیرشاہ"
مریدین و خلفاء
editبابادین محمد
editانہین بچپن ہی سے گود لے لیا تھا اپنے فرزندوں سے بھی زیادہ پیار کرتے فرماتے اسے مین اپنی خدمت کے لیے تیار کر رہا ہوں یہ میری خدمت کریگا اور پھر دنیا کا مخدوم ہوگاایک وقت ایسا بھی آیا کہ بابادین محمد کے علاوہ کوئی بھی قرین نہ جا سکتا یہی آخر وقت تک ساتھ رہے اور سجادہ نشین بھی بنے
میاں جھلا
editان کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ بڑے امیر کبیر تھے ایک مرتبہ محفل سماع سجا کر بیٹھے تھے کہ اچانک پیرا شاہ غازی وہاں سے گزرے قوال خاموش ہوئے تو آپ نے انہیں قوالی کا کہا تو یہ نوجوان بدتمیزی کے انداز مین کہنے لگا کہ ہم گپ شپ میں مصروف ہیں اورتم جھلے(جھلا پاگل کو کہتے ہیں) قوالوں کو قوالی کا کہہ رہے ہو آپ نے فرمایا جھلا میں نہیں تو جھلا ہے یہ کہہ کر چل دیے یہ بھی پیچھے چل پڑے جہاں ٹھہرتے ٹھہر جاتے چلتے تو چل پڑتے کبھی شفقت میں آتے تو کہتے"جھلیا تینوں وی جھلیا" یوں یہ اصل نام کی بجائے میاں جھلا کے نام سے شہرت پا گئے۔
میاں بھلا
editیہ بھی اپنے وقت کے برگزیدہ فقراء زبدۃ الاولیاء پیشوائے صلحاء تھے اکثر مستی وسکر کی حالت میں رہتے۔
میاں گھوڑا
editیہ فرد الافراد صاحب ارشاد تھے،میاں گھوڑا کا لقب اس لیے پڑا کہ دمڑی والے نقارہ ساتھ رکھتے اور اکثر یہ مرید اپنے کندھے پر اٹھا کر چلتے جنوب کی جانب دیوتی دیوتا پہاڑ کے پشتے پر نقارہ بجاتے تھے اس وجہ سے نام میاں گھوڑا پڑ گیاموضع ملوٹ کے قریب جنوب کی طرف"دہرہ"نامی گاؤں ہے اس کے نزدیک پیر پلاہ نامی درخت کے قریب مزار ہے جو میاں گھوڑا کا ہے انکی وفات پیرا شاہ غازی کی حیات میں ہوئی انہیں خود دفن کیا ۔
میاں پیرا
editیہ بھی بڑے باکمال مرید تھے ایک چنکارہ نامی ساز بجاتے انکی قبر میرپور کے علاقے اکالگڑھ میں ہے
حاجی شاہ
editیہ بھی خلیفہ اور مرید تھے صاحب کرامت اور باکمال ولی تھے اپ کی قبر مبارک میرپور کے مشرقی دروازے کے اندر سرس کے درخت کے نیچے واقع ہے
میاں حاجی بگا شیر
editان کانام مرید شاہ تھا یہ بادشاہ محمد شاہ کے ملازم تھے بڑے امیر کبیر تھے سب کچھ چھوڑ کر ان کی مریدی میں آ گئے ان ک مزار جہلم کے قریب برلب جی ٹی روڈ گجر پور میں ہے۔
میاں میرو
editمستان شاہ
editبابا جیون شاہ
editاولاد
editآپ کے دو فرزند تھے ایک دفعہ ان میں سے ایک آیا تو اسے آپ نے فرمایا جاؤ میرپور سراجاں والی مسجد میں قیام کرو اور مسجد کی روٹیاں کھاؤ اور جان لو میرے مصلے اور دمڑیوں کا وارث دین محمد ہے میری دولت سے تمہارا کوئی حصہ نہیں ان کے فرزند نے ایساہی کیا اس صاحبزادے کا نام میاں ساون جی تھا مسجد سراجاں میں قیام پزیر رہے یہاں ایک عورت سے نکاح کیا لیکن کوئی اولاد نہ ہوئی انکی زوجہ کا پہلے نکاح سے ایک فرزند تھا جس کا نام میاں گوجرتھا ان کے پاس رہے اور وہیں فوت ہو گئے میاں ساون جی اور انکی زوجہ کی قبر اسی مکان میں ہے۔