خواجہ احمد خان میروی
editخواجہ احمد خان میروی ثانی سرکار میرا شریف کے گدی نشین تھے۔ آپ کو خواجہ احمد میروی نے اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ آپ اپنے زمانے کے ایک بڑے عالم دین اور روحانی بزرگ تھے۔ آپ میرا شریف میں بیس سال تک خواجہ احمد میروی کے جانشین کی حثیت سے خدمات سر انجام دیتے رہے۔
خواجہ احمد خان میروی ثانی سرکار | |
---|---|
دیگر نام | ثانی سرکار |
ذاتی | |
پیدائش | (1287ھ بمطابق 1871ء)
|
وفات | (21 صفر المظفر 1250ھ بمطابق 8 جون 1931ء)
|
مذہب | اسلام |
والدین |
|
دیگر نام | ثانی سرکار |
سلسلہ | چشتیہ |
مرتبہ | |
مقام | میرا شریف |
دور | انیسویں، بیسویں صدی |
پیشرو | خواجہ احمد میروی |
جانشین | خواجہ فقیر محمد عبد اللہ میروی |
ولادت
editخواجہ احمد خان میروی کی ولادت 1287ھ بمطابق 1871ء کو اعوانقبیلے کے چشم و چراغ محمد پناہ کے گھر ہوئی۔ آپ کی جائے پیدائش چکڑالہ میانوالی ہے۔ ابھی آپ کی عمر صرف بارہ سال ہی تھی کہ والد ماجد کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا۔
تعلیم و تربیت
editخواجہ احمد میروی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے حاصل کی۔ قرآن پاک کی تعلیم مولانا عبد اللہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد موضع کھیوال ضلع جہلم، مکھڈ شریف ضلع اٹک اور بلکسر کے علاوہ مختلف علاقوں سے علم حاصل کیا۔ آپ نے اس کے ساتھ علم طب بھی سیکھا۔ کتب احادیث و تفاسیر مولانا احمد سکندر پوری سے پڑھیں۔
بیعت و خلافت
editخواجہ احمد خان میروی نے علوم دینیہ کی تکمیل کے بعد خواجہ احمد میروی چشتی نظامی تونسوی کے دست حق پرست پر شرف بیعت حاصل کیا۔ تصوف کی باطنی اور روحانی تعلیم کے حصول اور منازل سلول طے کرانے کے بعد آپ کے پیر و مرشد نے گڑھی افغاناں ضلع راولپنڈی کے عرس مبارک کی ایک بہت بڑی تقریب میں آپ کو دستار خلافت اور اجازت بیعت سے سرفراز فرمایا۔ یہ دستار بندی 1308ھ میں ہوئی تھی۔
میرا شریف میں سکونت
editخواجہ احمد خان میروی نے مرشد سے دستار خلافت حاصل کرنے کے بعد اپنے آبائی گاؤں میں رشد و ہدایت کا کام کرنے کے لیے واپس آ گئے۔ سولہ سال چکڑالہ رہنے کے بعد 1324ھ میں اپنا سب کچھ چھوڑ مستقل سکونت میرا شریف میں رکھ لی۔ وہاں آپ طلبہ کو تعلیم دینے میں مصروف ہو گئے۔ اپنی محنت و کشش سے مدرسہ کی رونق اور ترقی میں اضافہ کیا۔ آپ کی صلاحیتوں اور خدمت کے انداز کو دیکھتے ہوئے لنگر اور امور خانہ کا نگران بنا دیا گیا۔
میاں محمد سے ملاقات
editدوران حصول تعلیم خواجہ احمد خان میروی ایک مرتہ کھڑی شریف جا پہنچے۔ ان دنوں حضرت میاں محمد صاحب کا شہرہ تھا۔ آپ کے دل میں ان سے ملاقات کا شوق پیدا ہوا۔ وہاں پر آپ کی ملاقات ایک بزرگ سے ہوئی جنہوں نے بتایا کہ میں میاں محمد صاحب کا استاد ہوں اور انہوں نے مجھ سے کریما اور گلستان پڑھی ہے۔ خواجہ احمد خان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ علم کے بغیر کیا درویشی ہوگی۔ بہرحال ان سے ملنے کے لیے آپ چلے گئے۔ ملاقات کے دوران میاں محمد نے خواجہ احمد خان کو گلے سے لگایا اور پوچھا مولوی صاحب! بغل میں کیا ہے؟ خواجہ نے عرض کی شرح ملا۔ میاں صاحب نے فرمایا کہ ذرا سبق تو سناؤ۔ خواجہ میروی نے دل میں سوچا کہ گلستان پوری پڑھی نہیں اور کہتے ہیں کہ ملا شرح کا سبق سناؤ۔ جب خواجہ احمد خان نے سبق سنانا شروع کر دیا تو میاں محمد صاحب نے کسی زبردست عالم کی طرح نحوی اعتراضات کیے۔ خواجہ میروی نے دل میں سوچا کہ آپ تو زبردست عالم ہیں۔ اس بابا جی نے جھوٹ بولا ہے۔ میاں محمد فورا خواجہ میروی کے دل کے خیال سے آگاہ ہوئے اور بولے بابا جی نے سچ کہا ہے لیکن مولوی صاحب جب الله تعالی کسی بندے پر تجلی فرماتے ہیں تو علم الاولین و آخرین اس پر منکشف فرما دیتے ہیں پھر
- دسن اندر بھولے بھالے وچوں آب حیاتی ہو
کے مصداق بن جاتے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد میاں محمد کھڑی شریف نے خواجہ احمد خان میروی کو کھانا کھلایا اور فرمایا تم یہاں ٹھہر جاو میں تمہیں اپنی انگوٹھی کا نگینہ بنا کر رکھوں گا۔ خواجہ احمد خان میروی نے عرض کیا کہ بندہ میرا شریف والی سرکار کی انگوٹی میں لگ چکا ہے اور پھر ان کے احوال آپ کو سنائے اور اجازت کا طلب گار ہوکر آپ وہاں سے آگے کی طرف چلے گئے۔
استاد کی خدمت کا صلہ
editایک مرتبہ خواجہ احمد میروی کے حکم کے مطابق خواجہ احمد خان میروی ایک دور دراز جگہ پر ایک استاد محترم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہاں پر استاد صاحب کے مکان کے علاوہ ایک دو مکان تھے۔ آپ سبق پڑھنے کے بعد قریب کی بستی میں جا کر رہائش رکھتے تھے۔ کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ بارشیں شروع ہو گئیں اور استاد صاحب کا مکان گر گیا۔ آپ پڑھنے کے لیے حاضر ہوئے تو استاد صاحب کو انتہائی غمگین حالت میں پایا کیونکہ بارشوں سے ان کا مکان گرگیا تھا اور استاد صاحب غربت کی وجہ سے مکان بنانے کی طاقت نہ رکھتے تھے اس لیے انتہائی پریشان بیٹھے تھے۔ آپ نے استاد صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کو تسلی دی کہ آپ اطمینان رکھیں بندہ یہ کام کرنا جانتا ہے۔ آپ کا مکان ازسرنو بنا دیا جائے گا۔ آپ فورا مکان کے کام میں جُت گئے۔ پہلے دن سارا ملبہ صاف کیا اور اگلے دن دیواریں بنا دی۔ تین چار روز کی شدید محنت کے بعد مکان تیار کر کے استاد کا سامان اندر رکھا پھر اپنی قیام گاہ پر واپس ہوئے۔ خواجہ احمد خان میروی نے رات کو خواب میں دیکھا کہ خواجہ میروی کی بارگاہ میں حاضر ہوں جو آپ کو کہہ رہے ہیں کہ آپ میرا شریف کی جنوبی سرحد پر پہنچیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی سواری آ رہی ہے۔ جب آپ نیند سے بیدار ہوئے تو فورا اس طرف چلے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ آگے آگے سرکار دوعالم صلی الله تعالی علیہ والہ وسلم کا گھوڑا تھا اور پیچھے چار اصحاب سوار آ رہے ہیں۔ حضور نے طلائی کا لباس پہنا ہوا ہے۔ آپ فورا قدم بوس ہو گئے۔ رسول اللہ نے دست شفقت آپ کے شانے پر رکھا اور اسی حالت میں میرا شریف کی طرف چلے۔ خواجہ احمد میروی بھی استقبال کے لیے باہر تشریف لے آئے اور کچھ دیر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر رہے۔ رسول اللہ واپس ہونے کے لیے سوار ہوئے تو خواجہ میروی نے کہا کہ شمالی سرحد تک حاضری دو۔ آپ اس جگہ پر پہنچے تو رسول اللہ نے بکمال شفقت آپ کو رخصت کیا۔ آپ واپس خواجہ احمد میروی کی خدمت میں پہنچے تو خواجہ میروی نے فرمایا کہ آپ کی خدمت استاد صاحب مقبول ہوئی صبح اجازت لے کر فلاں مقام پر پہنچو۔ خواجہ احمد خان میروی کہتے ہیں کہ صبح استاد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور اجازت کا طالب ہوا تو استاد محترم رونے لگے کہ مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ لیکن میں نے اپنی معذوری کا واقعہ سنایا تو بادل نخواستہ اجازت عطا فرمائی اور میرے لیے دعا بھی فرمائی۔
مرشد کامل کا وصیت نامہ
editخواجہ احمد خان میروی ثانی سرکار کے پیر و مرشد خواجہ احد میروی چشتی نظامی نے آپ کے بارے میں ایک مختصر وصیت نام لکھا جس کے بعد آپ کو اپنا جانشین اور وارث مقررکیا جس کی عبارت کچھ یوں ہے۔ تمام پیر بھائیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ میاں جلال الدین المعروف استاد صاحب جھگی والے اول سے آخر تک میرے سفر و حضر میں ہمرکاب رہے۔ لیکن اس وقت چونکہ وہ بہت کمزور ہو چکے ہیں لنگر کے انتظام اور دیگر کاروبار کے متحمل نہیں رہے۔ لہذا میں نے اپنا قائم مقام مولوی احمد خان کو مقرر کیا۔ لنگر کا انتظام ان کے ذمے ہے۔ ادائے قرض و خرچہ لنگر، جنازہ ، گور و کفن سے جو مال باقی رہے۔ دو حصے وارث لے لیں، تیسرے حصے کا وارث مولوی احمد خان ہے۔
خانقاہ کی تعمیرات
editخواجہ احمد خان میروی کے دور میں خانقاہ میں بےحد ترقی کی۔ مہمان خانے، کنویں، تالاب تعمیر کرائے گئے اور حضرت اعلی خواجہ احمد میروی کا عالی شان روضہ آپ ہی نے بنوایا۔ آپ 20 سال تک حضرت اعلی کے مشن کو آگے بڑھاتے رہے۔
امرا سے اجتناب
editآپ دنیا داروں سے الگ تھلگ رہتے۔ کبھی کسی امیر، وڈیرے یا حکمران طبقہ کو خاطر میں نہ لاتے۔ اپنے مدرسے کے غریب طلبہ اور مرشد کے آستانے پر آنے والے غریب زائرین اور پیر بھائیوں سے شفقت سے پیش آتے۔
- ایک مرتبہ نواب آف کالا باغ نے حکم دیا کہ میرا شریف کی تمام بکریاں پکڑ کر پنڈی گھیب پھاٹک میں بند کر دو۔ یہ اعلان سن کر آپ نے فرمایا کہ میری تمام بکریاں حضرت فقر محمد عبد اللہ صاحب کے حوالے کر دو۔ میں خود نگهبانی کروں گا۔ تاجدار مدینہ نے حلیمہ سعدیہ کی بکریاں چرائی تھیں۔ میں بھی سب کی بکریاں چراؤں گا۔ یہ اعلان سن کر میراشریف کے تمام لوگوں نے اپنی اپنی بکریاں لے کر آپ کے پاس آگئے۔ کسی کی بکری کو نواب کے آدمیوں نے چھوا تک نہیں۔
- ایک مرتبہ حکومتی ارکان نے باہمی سازش کر کے قاصد بھیجا کہ حکومت کو بیگار کے لیے اونٹوں کی ضرورت ہے لہذا خانقاہ کے لنگر کے اونٹ دیے جائیں۔ خواجہ احمد خان میروی ثانی سرکار اس دن لنگر خانے میں موجود نہ تھے۔ دوسرے منتظم نے قاصد کو اونٹوں کے محافظ کی طرف رقعہ لکھ کر دے دیا۔ راستے میں قاصد کی خواجہ میروی ثانی سرکار سے ملاقات ہو گئی۔ قاصد نے رقعہ دکھایا تو آپ نے غصے میں آ کر پھاڑ دیا کہ لنگر کے اونٹ حضرت اعلی (خواجہ احمد میروی) کے خادم ہیں انگریز کے خادم نہیں۔ قاصد نے درشتگی کے ساتھ کہا کہ میں ڈپٹی کمشنر کو شکایت کروں گا اور دیکھا تمہارے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ وہ دھمکیاں دیتا ہوا چلا گیا۔ اس نے راستے میں دریائے سوان سے گزرنا تھا۔ اس میں سے گزر رہا تھا کہ اچانک ایک سیلابی ریلا اس کو بہا کر لے گیا اور وہ غیرت فقیر کا شکار ہو گیا۔
سیرت و کردار
editخواجہ احمد خان میروی ثانی سرکار اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم دین تھے۔ دور دور تک آپ کے علم و عرفان کا شہرہ تھا۔ متقی و پرہیز گار، عبادت گزار، نماز پنج گانہ کا باجماعت اہتمام باقاعدگی سے فرماتے رہے۔ اخلاق محمدی کا عملی نمونہ تھے۔ سخی اتنے زیادہ تھے کہ کسی کو لنگر کھائے بغیر جانے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ ظاہری تعلیم کے علاوہ بھی طالبان حق کو اعلی تعلیم کا مشاہدہ کراتے اور تھوڑے ہی عرصہ میں ان کو سلوک کی منزلیں طے کرا دیتے تھے۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ
- میں تو راکھا (نگران) ہوں مگر لوگ میرے پاؤں کی جوتوں کو چومتے ہیں۔ یہ سب میرے خواجہ احمد میروی چشتی نظامی علیہ الرحمہ کا کمال ہے۔ آپ انتہائی سادگی سے رہنا پسند کرتے تھے۔ آپ کا لباس سفید کرتا، تہبند اور کپڑے کی ٹوپی ہوتی تھی۔ آپ کے پاس ایک ہی کرتا تھا۔ فتح شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اگر کرتا میلا ہو جاتا تو آپ چادر لپیٹ لیتے اور میں کرتا دھو دیتا۔ پھر جب کرتا سوکھ جاتا تو اسی کو استعمال کرتے۔ میں نے عرض کیا دوسرا کرتا بنوا لیتے ہیں۔ ثانی سرکار نے فرمایا کہ وقت گزر جائے گا کیوں اسراف کرتے ہو۔
وصال
editخواجہ احمد خان میروی ثانی سرکار کا جسم وظیفہ انفاس کی وجہ سے کمزور ہو گیا تھا کیونکہ وظیفہ انفاس آخر دم تک آپ کا معمول رہا۔ آپ نے عمر کا آخری ایک مہینہ مکمل استغراق میں گزارا لیکن اس حالت میں بھی آپ کو چارپائی پر مسجد میں نماز باجماعت کے لیے لایا جاتا تھا۔ آپ نماز ادا کرتے اور پھر حالت استغراق میں چلے جاتے۔ خواجہ احمد خان میروی ثانی سرکار نے بروز سوموار 21 صفر 1350ھ بمطابق 8 جون 1931ء کو وصال فرمایا۔ آپ کی تدفین میرا شریف تحصیل پنڈی گھیب ضلع اٹک میں خواجہ احمد میروی کے پہلو میں کی گئی۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال 19، 20 اور 21 صفر المظفر کو میرا شریف میں عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ ثانی سرکار کی کوئی اولاد نہیں تھی اس لیے آپ نے خواجہ فقیر محمد عبد اللہ میروی کو اپنا جانشین نامزد کیا جو آپ کا بھتیجا تھا۔
تبرکات
editخواجہ احمد خان میروی ثانی سرکار کے استعمال شدہ چیزیں اب تک میرا شریف تحصیل پنڈی گھیب ضلع اٹک میں بطور تبرکات موجود ہیں۔ ان چیزوں میں آپ کا تہبند، کرتا، دستار، دندان اور عصا مبارک شامل ہے۔