سپریم کورٹ میں آج آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی، جس کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ وکلا کو اپنے دلائل میں واضح کرنا ہوگا کہ 63 اے کیا ہے اور منحرف رکن کی سیٹ خالی ہونے پر۔ ہو گا۔ یہ سوچ کر دلائل دیں کہ جمہوریت کے لیے کیا اچھا ہے۔
پیر کو ہونے والی سماعت میں اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل جاری رکھے، عدالت نے اٹارنی جنرل کو ایک دن میں اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ عدالت نے کہا کہ عدالت کو دیگر فریقین کو بھی سننا ہے۔
کمالیہ میں وزیراعظم کے اجلاس میں وزیراعظم کے ریمارکس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس مظہر عالم خیل نے اٹارنی جنرل سے کہا: تو کیا آپ نے وزیراعظم کی بات نوٹ کی؟ آپ بھی دیکھیں کہ عدالتی ریمارکس کیسے لیے جاتے ہیں۔سوشل میڈیا کو بھی عدالتی ریمارکس سے محتاط رہنا چاہیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا وزیراعظم کو عدلیہ پر اعتماد نہیں؟ وزیراعظم غیر ذمہ دارانہ بیانات سے ہوشیار رہیں۔
یہ آرٹیکل ہے کیا؟
1973 کے آئین میں ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لیے کوئی آئینی شق موجود نہ تھی اور آئین سازی کے بعد تقریباً دو عشروں سے زیادہ ایسی کسی ترمیم کی ضرورت بھی محسوس نہ کی گئی۔ یہاں تک 1997 میں اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے، جسے پارلیمان میں دستور میں ترمیم کے لیے درکار دو تہائی عددی اکثریت حاصل تھی، ہارس ٹریڈنگ کی سیاست کو روکنے کے لیے آئین میں آرٹیکل 63 اے کی شکل میں چودھویں ترمیم کے ذریعے ایک آئینی شق کا اضافہ کرنے کا بل پیش کیا۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار، جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے آئینی ترمیم کو قانون سازی کا عمل مکمل ہونے سے پہلے ہی مزید کارروائی سے روک دیا گیا، حالانکہ مقننہ کو آئین کا مسودہ تیار کرنے کا مکمل اختیار دیا گیا تھا۔
حکمراں جماعت اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کی مداخلت پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے چیف جسٹس پر ہارس ٹریڈنگ کو فروغ دینے کا الزام لگایا۔
جس کے بعد ملکی تاریخ میں پہلی بار ارکان اسمبلی اور ملک کے نو منتخب وزیراعظم کو سپریم کورٹ میں عدلیہ مخالف ریمارکس کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی پر ذاتی طور پر طلب کیا گیا۔
28 نومبر 1997 کو حکمران جماعت کے سیاسی کارکن، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک درجن ارکان کی قیادت میں سپریم کورٹ پہنچے (جن میں احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمان اور طارق عزیز بھی شامل تھے۔ نیلام گھر سے معروف مسلم لیگی ایم این اے۔( اور وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے دوران سپریم کورٹ کی عمارت پر دھاوا بول دیا گیا اور وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی سماعت کرنے والے بینچ کو کارروائی چھوڑ کر اپنے چیمبر میں پناہ لینا پڑی۔ یہاں تک کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ کو سپریم کورٹ کے ہی ایک بینچ کے فیصلے کے نتیجے میں اپنے عہدے سے رخصت ہونا پڑا اور جسٹس اجمل میاں نئے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔ ویکی نیوز