قدیم زمانے میں ٹوٹے برتنوں کے ٹکڑوں سے لکھنے کےلیے تختیوں کا کام بھی لیا جاتا تھا کیونکہ وہ بہت کم خرچ ہوتے تھے اور آسانی سے دستیاب ہوجاتے تھے۔
لکھائی کی تختیوں یا مخطوطات کے طور پر استعمال ہونے والے، مٹی کے ان ٹکڑوں کو ’اوسٹراکون‘ (ostracon) کہا جاتا ہے جس کی جمع ’اوسٹراکا‘ (ostraca) ہے۔[1]
اب تک دریافت کے ہونے والے ان ’اوسٹراکا‘ پر الگ الگ ادوار کی زبانیں لکھی ہوئی ہیں جن میں تصویروں اور الفاظ پر مشتمل مصری، قدیم یونانی زبانیں، قبطی (کوپٹک) اور عربی شامل ہیں۔[2]
البتہ ’ڈومینک‘ (Dominic) زبان میں لکھے گئے ’اوسٹراکا‘ کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو یہ پہلی صدی قبلِ مسیح میں ملکہ قلوپطرہ کے والد (بادشاہ بطلیموس دوازدہم/ 12) کے زمانے میں سرکاری اور انتظامی زبان تھی۔
بہت سے ’اوسٹراکا‘ پر خریداری کےلیے سامان کی فہرست، تجارتی حساب کتاب اور ادبی نگارشات درج ہیں جبکہ زیادہ تعداد ایسے ’اوسٹراکا‘ کی ہے جو بچوں نے اپنی پڑھائی کے دوران میں لکھی تھیں اور جن میں تحریر کے علاوہ تصویریں بھی شامل ہیں۔