مولانا اللہ یار خان سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے بانی شیخ تھے۔
خاندانی پس منظر
editاللہ یار خان اعوان خاندان سے تعلق رکھتے تھے ،ملک ساہو خان‘ قطب حیدر اور سالار غازی مسعود نے سلطان محمود غزنوی کے ساتھ مل کر سومنات فتح کیا‘ ان کی اولاد میں اللہ یار خان ظہور پزیر ہوئے۔
ولادت
editاللہ یار خان 1323ھ یا 1322ھ / 1904ء کو موضع چکڑالہ ضلع میانوالی کے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔
نام ونسب
editوالد کا نام ذو الفقار تھا جو خاندان کے دیگر افراد کی طرح کاشتکاری کے پیشہ سے وابستہ تھے۔ والدہ کا نام عالم خاتون تھا۔ آپ کا خاندان چکڑالہ کے شمال میں اڑھائی تین میل کے فاصلہ پر ایک چھوٹے سے ڈیرے پر قیام پزیر تھا۔ جہاں پر آپ کا بچپن کھیتی باڑی کے امور میں والد کا ہاتھ بٹاتے ہوئے گذرا۔
تعلیم وتربیت
editپانچویں تک کا نصاب ختم کرنے کے بعد آپ نے دیگر علوم مروجہ کی طرف توجہ مبذول فرمائی۔ اس دور میں باقاعدہ مدارس نہیں تھے۔ کسی گاؤں میں کسی فن میں کمال رکھنے والے استاد کے پاس جا کر طلبہ وہ فن سیکھتے ‘ ان کتابوں کی تکمیل کے بعد کسی اور کے پاس حاضر ہو جاتے۔ آپ نے بھی علم کی جستجو میں مسجد خواجگان ڈلوال‘ چکوال کے قریب انے والا موہڑہ‘ لنگر مخدوم کے قریب چک نمبر 10 بھلوال جیسی کئی جگہوں پررہ کر صرف ونحو‘ فلسفہ ومنطق ‘ عربی علوم وفارسی کی نہ صرف تحصیل کی بلکہ ان میں کمال حاصل کیا۔ مختلف اساتذہ سے استفادہ کے بعد آپ مدرسہ امینیہ دہلی دورہ حدیث کے لیے تشریف لے گئے۔ علوم دینیہ کی تکمیل کے بعد آپ نے علم طب کی کتابیں پڑھیں
تصنیفات
editتفسیر‘ حدیث‘ فقہ واصول فقہ‘ ادب ولغت‘ عربیت اور کلام وغیرہ تمام علوم دینیہ آپ کی توجہات کا خاص مرکز رہے۔ کئی تحقیقی تصانیف منظر عام پر آئیں ‘ مثلاً
- تحذیر المسلمین عن کید الکاذبین
- الدین الخاص
- ایمان بالقرآن
- تحقیق حلال وحرام
- الجمال والکمال
- نفاذ شریعت وفقہ جعفریہ
- حیات بزرخیہ
- حیات النبی علیہ وسلم
- اسرار الحرمین
- سیف اویسیہ آپ کی یادگار تصانیف ہیں۔
ذریعہ معاش
editمولانا کی ملازمت کا آغاز میانوالی پولیس میں تعیناتی سے ہوا لیکن طبعی میلان کچھ اور ہی تھا۔ اس لیے وہ نوکری چھوڑ دی۔ پھر پشاور جیل کے عملے میں شامل ہو گئے لیکن وہاں کے ہندو داروغہ سے اس لیے نہ بنی کہ وہ راشی اور قیدیوں کو ملنے والی رقم غبن کرتا تھا۔ آپ نے تعاون نہ کیا اور اس ملازمت سے بھی سبکدوش ہو گئے اس کے بعد آپ نے کوئی ملازمت نہ کی۔
ازدواجی زندگی
editمولانا نے تین عقد فرمائے۔ آپ کی اولاد دو صاحبزادوں اور دو صاحبزادیوں پر مشتمل ہے۔
وفات
edit15 جمادی الاول 1404ھ بمطابق 18 فروری 1984ء بروز سنیچر اسلام آباد میں آپ نے رحلت فرمائی۔
آخری وصیت
editحضرت مولانا الله یار خان رحمته الله علیه نے اپنی وفات 18 فروری 1984 سے ایک مهینه قبل 12 جنوری 1984 کی رات کو اکابرین سلسله کے سامنے اپنی وصیت ریکارڈ کروائی. یہ وہ آخری ھدایات ہیں جو حضرتؒ نے اپنے خلفا اور جماعت کے لئیے چھوڑیں۔آڈیو کے شروع میں آپ نے سختی سے پوری جماعت کو حکم دیا که مولانا اکرم اعوان اور اس کے کچھ ساتھی میری میت کو اغوا کر کے مناره میں دفنانا چاہتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہ کیا جائے اور مجھے چکڑاله میں هی دفن کرنا، حضرت مولانا اللہ یار خانؒ کی اس وصیت سے ان کے کسی بھی خلیفہ کی جانب سے شیخ سلسلہ ہونے کے دعویٰ کی تردید ہوتی ہے۔ حضرت جیؒ نے اتحاد و اتفاق کی تلقین فرمائی، اور اسے دنیا و آخرت میں بھلائی کا موجب قرار دیا۔